Thursday, 30 December 2021

بندی خانے میں موت کی کھڑکی

 بندی خانے میں


جب رفاقت کے پھولوں سے سڑاند اٹھنے لگے

اور جینا محض ایک ضد بن جائے

جب وجود کے کِنگرے

اہانت کی گلیوں سے اکٹھے کرنے پڑ جائیں

دھوپ

بدرو میں پھینکے گئے شجرے کی نمی جذب کر سکتی ہے

نجاست نہیں

جب آدمی کسی ویران مقبرے کا پیڑ بن کے رہ جائے

جس پر رشتوں کی دھجیاں پھڑپھڑاتی رہیں

جب جاگنے کے دوران بستر کے خواب آئیں

اور بستر پر

دیوتاؤں سے نیند کی بھیک مانگنی پڑے

سفاک بیماری کے ہنٹر

سسکاریوں کی پشت پر جھیلنے پڑ جائیں

جب آہنی سلاخوں کی دوسری جانب

دبیز شیشے جیسی دنایت

لفظوں کا منہ چڑا رہی ہو

تو بندی خانے میں

صرف موت کی کھڑکی کھلی ملتی ہے


شناور اسحاق

No comments:

Post a Comment