بندی خانے میں
جب رفاقت کے پھولوں سے سڑاند اٹھنے لگے
اور جینا محض ایک ضد بن جائے
جب وجود کے کِنگرے
اہانت کی گلیوں سے اکٹھے کرنے پڑ جائیں
دھوپ
بدرو میں پھینکے گئے شجرے کی نمی جذب کر سکتی ہے
نجاست نہیں
جب آدمی کسی ویران مقبرے کا پیڑ بن کے رہ جائے
جس پر رشتوں کی دھجیاں پھڑپھڑاتی رہیں
جب جاگنے کے دوران بستر کے خواب آئیں
اور بستر پر
دیوتاؤں سے نیند کی بھیک مانگنی پڑے
سفاک بیماری کے ہنٹر
سسکاریوں کی پشت پر جھیلنے پڑ جائیں
جب آہنی سلاخوں کی دوسری جانب
دبیز شیشے جیسی دنایت
لفظوں کا منہ چڑا رہی ہو
تو بندی خانے میں
صرف موت کی کھڑکی کھلی ملتی ہے
شناور اسحاق
No comments:
Post a Comment