سیکھ لیا جینا میں نے
اتنا زہر پیا میں نے
شکوہ نہیں کیا میں نے
آنسو پونچھ لیا میں نے
ان سے مل کر آیا ہوں
خواب نہیں دیکھا میں نے
ہوا کو آتے جب دیکھا
روشن کیا دِیا میں نے
پیاسا تھا کرتا بھی کیا
لکھ ڈالا دریا میں نے
پرچم سا لہرایا ہوں
کھائی تیز ہوا میں نے
حسن چمن لکھتا کیسے
پڑھا نہ اک پتا میں نے
دیواروں کی بستی میں
دروازہ لکھا میں نے
پاش پاش ہوا پھر بھی
سر اونچا رکھا میں نے
کسی کو کیا دینا حشمی
قرض ہی کیے ادا میں نے
جلیل حشمی
No comments:
Post a Comment