Wednesday 29 December 2021

جھوٹ اور سچ کے تماشے میری زباں کاٹ دی

 جھوٹ اور سچ کے تماشے


ذرا دیکھ میرے مقدر کی شاخوں پہ

جتنے شگوفے تھے

سب جل گئے ہیں

مِرے رخت جاں پر

بہاروں کا ضامن

کوئی گل نہیں ہے

ذرا یاد کر جب

تِری خوش بیانی نے

جھوٹ اور سچ کے تماشے میں

میری زباں کاٹ دی تھی

وہ دن شوق پرواز میں جب

تِرے بازوؤں نے

مِری شاخ جاں کاٹ دی تھی

تِرے مرمریں قصر کے سنگ بنیاد میں

میرا خوں ہے

تِرے بعد برسوں

تمازت میں چل چل کے میرے قدم

تھک گئے ہیں

جبھی یخ کدے میں بھی تو بے سکوں ہے

مسیحائی کے زعم میں جتنے نشتر

تِرے ہاتھ سے

میری رگ رگ میں اترے

سبھی پر تِرا خوں مِرے خوں

کے دھبوں سے لپٹا ہوا ہے

مِری قطع جاں ہی سے تیری نمو ہے

مگر یہ بھی سچ ہے

تِری آبرو ہی مری آبرو ہے

تِرا حال میری نظر سے عیاں ہے

کہ تُو میری جاں ہے


عبیرہ احمد

No comments:

Post a Comment