جھوٹ اور سچ کے تماشے
ذرا دیکھ میرے مقدر کی شاخوں پہ
جتنے شگوفے تھے
سب جل گئے ہیں
مِرے رخت جاں پر
بہاروں کا ضامن
کوئی گل نہیں ہے
ذرا یاد کر جب
تِری خوش بیانی نے
جھوٹ اور سچ کے تماشے میں
میری زباں کاٹ دی تھی
وہ دن شوق پرواز میں جب
تِرے بازوؤں نے
مِری شاخ جاں کاٹ دی تھی
تِرے مرمریں قصر کے سنگ بنیاد میں
میرا خوں ہے
تِرے بعد برسوں
تمازت میں چل چل کے میرے قدم
تھک گئے ہیں
جبھی یخ کدے میں بھی تو بے سکوں ہے
مسیحائی کے زعم میں جتنے نشتر
تِرے ہاتھ سے
میری رگ رگ میں اترے
سبھی پر تِرا خوں مِرے خوں
کے دھبوں سے لپٹا ہوا ہے
مِری قطع جاں ہی سے تیری نمو ہے
مگر یہ بھی سچ ہے
تِری آبرو ہی مری آبرو ہے
تِرا حال میری نظر سے عیاں ہے
کہ تُو میری جاں ہے
عبیرہ احمد
No comments:
Post a Comment