Wednesday, 29 December 2021

مٹی ہوں بھیگنے دے مرے کوزہ گر ابھی

 مٹی ہوں بھیگنے دے مِرے کوزہ گر ابھی

مصروف گردشوں میں ہے دستِ ہنر ابھی

خود بڑھ کے قتل گاہ میں قاتل کے سامنے

مقتول ہو گیا ہے بہت با اثر ابھی

چہروں بھری کتاب میں ملتی نہیں ہے اب

دیکھی تھی تیری شکل کسی صفحہ پر ابھی

چمکے تھے لفظ تیری سماعت کی دھوپ میں

حسنِ خیال تھا کہ ہُوا معتبر ابھی

دل آبلوں کا رکھنے کو شاید اتر پڑے

ابرِ رواں ہے دشت میں محوِ سفر ابھی

ہم ہیں چراغِ 🪔 آخرِ شب تو ملال کیا

بجھ بھی گئے ہوا سے تو ہو گی سحر ابھی


تسنیم حسن

No comments:

Post a Comment