Wednesday 29 December 2021

اپنی محرومیوں کو چھپاتی ہوئی زندگی اور ہے

 اپنی محرومیوں کو چھپاتی ہوئی زندگی اور ہے

آئینے سے نگاہیں ملاتی ہوئی زندگی اور ہے

وہ دِیے اور ہیں دشمنی جو ہوا سے نبھاتے رہے

تیرگی کو اُجالا بناتی ہوئی زندگی اور ہے

شہرِ جاناں کی گلیوں میں ہنستی ہوئی زندگی اور تھی

دشتِ ہجراں میں یوں خاک اڑاتی ہوئی زندگی اور ہے

اونچے محلوں کی آسودگی کل مکینوں سے کہنے لگی

دائرہ دائرہ پیچ کھاتی ہوئی زندگی اور ہے

مسکراہٹ اک ایسا خزانہ ہے جس کی چمک ہے الگ

آنسوؤں میں مگر جھلملاتی ہوئی زندگی اور ہے

کشمکش میں عجب حسن ہے تم کو شاید نہیں ہے خبر

دور ہوتی ہوئی،۔ پاس آتی ہوئی زندگی اور ہے

اپنے دُکھ قہقہوں میں اُڑانے کا ہے اور ہی کچھ مزا

غم کے احوال پر مسکراتی ہوئی زندگی اور ہے

مجھ کو زخمِ سفر دے کے اک بار پھر آگہی نے کہا

درد کی آہٹوں سے جگاتی ہوئی زندگی اور ہے


رخسانہ صبا

No comments:

Post a Comment