Friday, 31 December 2021

تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بیگانے بنے

 تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بے گانے بنے

جستجو میں اہل دل پھرتے ہیں دیوانے بنے

سب کو ساقی نے نہیں بخشا دل درد آشنا

جتنے اہل ظرف تھے اتنے ہی پیمانے بنے

جلوۂ حسن اور سوز عشق دونوں ایک ہیں

شمع کی لو تھرتھرانے ہی سے پروانے بنے

موج طوفاں خیز اٹھ کر چھین لے ساحل کی آس

نا خدا کے آتے آتے کیا خدا جانے بنے

دم بخود ہے تیرے آگے اعتبار عقل و ہوش

ہوش والے جب بڑھے حد سے تو دیوانے بنے

دیکھ لے زاہد مری روشن ضمیری کی نمود

ایک آئینے سے کتنے آئینہ خانے بنے

اے فگار! افسانۂ دیر و حرم کا ذکر کیا

اس حقیقت کے نہ جانے کتنے افسانے بنے


فگار اناوی

No comments:

Post a Comment