Thursday, 30 December 2021

مجھے تپتے ہوئے حرفوں کی بھٹی سے نکالو

 مجھے تپتے ہوئے حرفوں کی بھٹی سے نکالو

میرے تالُو میں چھالے بن گئے ہیں گاؤں والو

پسرتے شہر کے پکے مکانوں میں گُھٹن ہے

کشادہ صحن کی عادی تھی میں اے شہر والو

یہ پگڈنڈی نشاں ہے، بس یہیں تک روشنی ہے

اب اس سے آگے ہاتھوں میں کوئی مشعل اُٹھا لو

سنو، ملنا ملانا، سب اُٹھا رکھتے کل پر

کہ جُز وقتی جُدائی میں بقا ہے، آزما لو

اگر وہ شیر کل پھر آ گیا، سب کھا گیا تو

تم اس سے پہلے اپنے گرد اک دیوار اُٹھا لو

محبت کا نشاں وہ بوڑھا برگد کٹ چکا، پر

تمہیں کس نے کہا اس کی جگہ کیکر اُگا لو

سنو، آسیب ہے تم سب کے دروازوں کے باہر

سو اپنے اپنے دروازوں پہ سب کُنڈی لگا لو


فرح گوندل

No comments:

Post a Comment