Thursday, 30 December 2021

کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو بتاؤں گا اس کو

 کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو

بتاؤں گا اس کو

وہ ڈھلتے پہر کی پری زادیوں کے

کنوارے لبادے

بجھے دل کے نوحے

کواڑوں پہ جالوں کی بستی

محبت سے پہلو تہی کرنے والے بشر کی بخیلی

نسائی محبت کے نشے میں پھسلا ہوا ایک دھوکہ

وہ کچرے میں بکھری ہوئی ہڈیاں دیویوں کی

عقائد کی ہنڈیا میں اُبلی ہوئی جنسِ آدم کی لاشیں

یہ بوسیدگی سے بِلکتے ہوئے گاؤں والوں کی باتیں

بتاؤں گا اس کو

کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو

بہاؤ جو ساوی زمینوں کے

سر سے ہٹایا ہے، وہ بھی

گلہری کے پیڑوں کو آرے سے

جس نے کٹایا ہے، وہ بھی

پرندوں کے پاؤں کو سولر کے ریشوں میں

جکڑا ہے جس نے

بشر کو اسیری کا عادی بنایا ہے

جس نے زمین کے بدن کی یہ تقسیم

ساری دکھاؤں گا اس کو

بتاؤں گا اس کو

کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو

وہ خاشاک ہوتے ہوئے

جنگلوں کی بجھی ٹہنیاں بھی

مساوات کے نام پر بندشیں بھی

نئے آئینے کی چبھن سے گریزاں یہ

مخلوط سوچیں

یہ نادار سے ان کی چھینی ہوئی زندگی کے منارے

یہ باطل کی وحشت کے پھیلے ہوئے استعارے

یہ آسیب جیسے مسیحاؤں کے سب ادارے بتاؤں گا اس کو

کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو

بتاؤں گا اس کو


عرفان شہود

No comments:

Post a Comment