کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو
بتاؤں گا اس کو
وہ ڈھلتے پہر کی پری زادیوں کے
کنوارے لبادے
بجھے دل کے نوحے
کواڑوں پہ جالوں کی بستی
محبت سے پہلو تہی کرنے والے بشر کی بخیلی
نسائی محبت کے نشے میں پھسلا ہوا ایک دھوکہ
وہ کچرے میں بکھری ہوئی ہڈیاں دیویوں کی
عقائد کی ہنڈیا میں اُبلی ہوئی جنسِ آدم کی لاشیں
یہ بوسیدگی سے بِلکتے ہوئے گاؤں والوں کی باتیں
بتاؤں گا اس کو
کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو
بہاؤ جو ساوی زمینوں کے
سر سے ہٹایا ہے، وہ بھی
گلہری کے پیڑوں کو آرے سے
جس نے کٹایا ہے، وہ بھی
پرندوں کے پاؤں کو سولر کے ریشوں میں
جکڑا ہے جس نے
بشر کو اسیری کا عادی بنایا ہے
جس نے زمین کے بدن کی یہ تقسیم
ساری دکھاؤں گا اس کو
بتاؤں گا اس کو
کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو
وہ خاشاک ہوتے ہوئے
جنگلوں کی بجھی ٹہنیاں بھی
مساوات کے نام پر بندشیں بھی
نئے آئینے کی چبھن سے گریزاں یہ
مخلوط سوچیں
یہ نادار سے ان کی چھینی ہوئی زندگی کے منارے
یہ باطل کی وحشت کے پھیلے ہوئے استعارے
یہ آسیب جیسے مسیحاؤں کے سب ادارے بتاؤں گا اس کو
کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو
بتاؤں گا اس کو
عرفان شہود
No comments:
Post a Comment