دل دکھا تھا مِرا ایسا کہ دکھایا نہ گیا
درد اتنا تھا کہ خود ان سے بڑھایا نہ گیا
بے خود عشق سے پھر ہوش میں آیا نہ گیا
سر جو سجدہ میں جھکایا تو اٹھایا نہ گیا
راز اس پردہ نشیں کا کبھی پایا نہ گیا
محرم راز سے بھی راز بتایا نہ گیا
آفریں لذت نظارہ خوشا عالم کیف
دل کا آنا تھا کہ پھر ہوش میں آیا نہ گیا
لب پہ اپنے نہ کبھی حرف تمنا آیا
راز دل کا مگر آنکھوں سے چھپایا نہ گیا
عشق سے دل نے کسی طرح نہ فرصت پائی
یہ وہ شعلہ ہے کہ دہکا تو بجھایا نہ گیا
جلوہ یوں عام کیا اس نے کہ سب نے دیکھا
پردہ یوں اس نے گرایا کہ اٹھایا نہ گیا
بشیر حسین
No comments:
Post a Comment