Friday 31 December 2021

چشم فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

 چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

ہجر کا لمحۂ سفاک اٹھا لائی ہوں میں

میری آنکھوں میں جو بھر دی تھی تِری قربت نے

بس اسی ریت سے اک دشت بنا لائی ہوں میں

جانتی تھی کہ کھلیں گے نہ کبھی بند کواڑ

رائیگانی کے لیے اپنی صدا لائی ہوں میں

کوزہ گر خود مِری شوریدہ سری میں گم ہے

اپنی مٹی کے لیے چاک نیا لائی ہوں میں

تُو یہ سمجھا کہ مجھے تیری طلب ہے لیکن

تیرے ہونٹوں کے لیے حرفِ دعا لائی ہوں میں

جس نے ہر بار مِرے خواب کیے ہیں نیلام

اسی دنیا کے لیے نیند بچا لائی ہوں میں

میرے خالق نے تو لکھا تھا چراغوں میں مجھے

اپنے ہمراہ مگر تیز ہوا لائی ہوں میں


رخسانہ صبا

No comments:

Post a Comment