Friday, 31 December 2021

نادیدہ موت (وائرس) یک بہ یک پیڑ تابوت بنتے گئے

 نادیدہ موت


یک بہ یک

پیڑ تابوت بنتے گئے

صور پھونکا فرشتے نے

اک موڑ سے

وائرس کی طرح

برف، بارش کے تختے پہ بہتی ہوئی

زندگی کے چراغوں کو گُل کر گئی

ابنِ یعقوبؑ جیسے ہی خوابوں کو

ہم نے بھی دیکھا

مگر ان کی تعبیر کو

شہرِ ووہان کے باسیوں نے نہ سمجھا

اگرچہ یہ ترتیب فطری ستاروں کی بدلی

مکاں لامکاں کے نئے زائچے

خود مرتب کئے

آسمانوں کے رستے بنائے

مگر کبریائی کے دعوؤں کے پرزے

ہوا میں نمی نے اڑائے

کہ چمگادڑوں نے ہمارے بدن کی سیہ غار سے

اپنے پر پھڑپھڑائے

کفن کے کسی کاٹھ پر

ناگہانی گلوں کی جلی پتیاں راکھ ہوتی گئیں

سرخیاں پھول چہروں کی سب خاک ہوتی گئیں

کیسی افتاد ہے

٭قیرگوں خوف کے ان سیہ پتھروں پر

گھساتے ہوئے ایڑیاں ہم بھی تائب ہوئے

ہم بھی آبِ شفاعت کی اُمید میں

کوہِ مروہ کے چکر لگانے چلے تھے

مگر دستکیں ساری بے کار نکلیں

کہیں معبدوں کو فرشتوں نے خود سے مقفل کیا

اور صلیبیوں کو دل کی طرح زنگ لگنے لگا

گھنٹیاں مندروں کی چھتوں میں نہیں

سر بہ سر وسوسے

نو بہ بو حیرتیں

چار سُو سرسرانے لگیں


عرفان شہود

٭قیرگوں: سیاہی مائل، تاریک

No comments:

Post a Comment