ترکِ الفت کو ہوئی عمر، پہ جاری ضد ہے
یونہی ہر رات عبث نجم شماری ضد ہے
چاہتا ہوں کہ تمہیں روک لوں اک پل کے لیے
ہاں مگر چھوڑ کے جانا جو تمہاری ضد ہے
آنکھ میں اشک ہیں، کچھ جی بھی ہے بوجھل بوجھل
کیفیت کیا جو مِرے دل پہ ہے طاری، ضد ہے
لڑکھڑاتے ہیں قدم آبلہ پائی کے سبب
اور آنکھوں میں بسی بادہ خماری ضد ہے
ہم نے اک عمر وفا اس سے نبھائی فیصل
جانتے بوجھتے یہ ساری کی ساری ضد ہے
فیصل ودود
No comments:
Post a Comment