کون کہتا ہے محبت نہیں کی جا سکتی
ہاں محبت کی وضاحت نہیں کی جا سکتی
ہر کوئی دولتِ دنیا کا طلب گار نہیں
ہر کسی دل پہ حکومت نہیں کی جا سکتی
ان کی مرضی ہے کہ سیراب کریں یہ جس کو
بادلوں سے تو شکایت نہیں کی جا سکتی
اشک رخسار سے رخصت ہوا کہنا اس سے
وہ جو کہتا تھا کہ ہجرت نہیں کی جا سکتی
خواب آنکھوں میں امڈ آئے ہیں پھولوں کی طرح
صرف ہر بار حقیقت نہیں کی جا سکتی
خاک اورخوں سے اجڑتی ہوئی اس دنیا میں
زندگی تیری حمایت نہیں کی جا سکتی
ہجر میں شکر ادا کرتا ہوں ہر دم اس کا
اس سے بڑھ کر تو قناعت نہیں کی جا سکتی
ہم کو راضی بہ رضا رہنا پڑے گا جاوید
کچھ بھی ہو جائے شکایت نہیں کی جا سکتی
سید جاوید
No comments:
Post a Comment