رہنماؤں کی بات کرتے ہو
پارساؤں کی بات کرتے ہو
جو اڑا لیں سروں سے آنچل بھی
ان ہواؤں کی بات کرتے ہو
جل رہی ہے زمیں کی کوکھ مگر
تم خلاؤں کی بات کرتے ہو
مجھ کو محنت کا بھی صِلہ نہ ملا
تم دعاؤں کی بات کرتے ہو
پہلے انساں کو زہر دیتے ہو
پھر دواؤں کی بات کرتے ہو
میری بستی میں بھوک پلتی ہے
تم بلاؤں کی بات کرتے ہو
مار ڈالا وفا شعاروں نے
بے وفاؤں کی بات کرتے ہو
کتنے فرعون مٹ گئے آ کر
کن خداؤں کی بات کرتے ہو
نقاش عابدی
No comments:
Post a Comment