اوس کا لمس
کام کاج نبٹا کر سارے
اپنی ذات میں لوٹ آئی ہوں
سبزے جیسی روشنی والا
اک دروازہ کُھلتا ہے
کائی والے رستے پر میں
اس سے گزر کر جاتی ہوں
اپنا شہر، محلے گلیاں
رستوں کی چمکیلی دھوپ
اوس میں ڈھل کر تکتی ہوں
دل، دو رویہ ہو جاتا ہے
سانسیں لمبی لگتی ہیں
ڈھونڈ کے ٹھنڈے نیم کی چھاؤں
میں سستایا کرتی ہوں
کچھ لمحوں کی گہرائی میں
ایک عہد ہے میرے ساتھ
سرخ، گلابی باتوں کے
ذہن میں کتنے پھول پڑے ہیں
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment