Thursday 30 December 2021

اوس میں ڈھل کر تکتی ہوں

 اوس کا لمس


کام کاج نبٹا کر سارے

اپنی ذات میں لوٹ آئی ہوں

سبزے جیسی روشنی والا

اک دروازہ کُھلتا ہے

کائی والے رستے پر میں

اس سے گزر کر جاتی ہوں

اپنا شہر، محلے گلیاں

رستوں کی چمکیلی دھوپ

اوس میں ڈھل کر تکتی ہوں

دل، دو رویہ ہو جاتا ہے

سانسیں لمبی لگتی ہیں

ڈھونڈ کے ٹھنڈے نیم کی چھاؤں

میں سستایا کرتی ہوں

کچھ لمحوں کی گہرائی میں 

ایک عہد ہے میرے ساتھ

سرخ، گلابی باتوں کے

ذہن میں کتنے پھول پڑے ہیں


فرزانہ نیناں

No comments:

Post a Comment