Thursday 30 December 2021

جان لے گر تو جان لیتا ہے کیوں مِرا امتحان لیتا ہے

 جان لے گر تو جان لیتا ہے

کیوں مِرا امتحان لیتا ہے

کیا بتاؤں میں اپنا حالِ دل

جانتا ہوں تو جان لیتا ہے

زخم ڈھلتے نہیں ہیں لفظوں میں

کیوں مِرا تُو بیان لیتا ہے

دیکھ ہمدردیوں کا مرہم رکھ

سرخ آنکھیں کیوں تان لیتا ہے

دل کو سہلا بھی تھپکیاں بھی دے

دل تو بچہ ہے، مان لیتا ہے

آسماں کو زمیں سمجھتا ہے

جب پرندہ اڑان لیتا ہے

دیکھ کر وار کرنا پہلو سے

دیکھنا پھر سے جان لیتا ہے

کیا جلائے گی آگ اس کو جو

روز درسِ قرآن لیتا ہے

شاہ پھولوں سا دل تو رکھتا ہے

اور خوشبو پہ جان دیتا ہے


شہاب الدین شاہ

No comments:

Post a Comment