Tuesday 28 December 2021

نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے

 نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے

تماش بین ہمیشہ سے رقص گاہ میں ہے

بنامِ عشق مِری زندگی! تِرے قرباں

مگر نصیب مِرا بے طلب نباہ میں ہے

میں جانتا ہوں کہ ہے کس کی آنکھ کا آنسو

وہ ایک لعل جو اب تک مِری کلاہ میں ہے

دلوں کے رشتے ہیں سب الوداعی منزل میں

کہ ناگزیر اذیت ہر ایک چاہ میں ہے

نمازِ عید کئی سال سے نہ پڑھ پایا

بنامِ موت کوئی خوف عید گاہ میں ہے

یہ میری فکر نئے دور کی امانت ہے

کہ آنے والی صدی بھی مِری نگاہ میں ہے

یہ اتفاق بھی اک انحراف ہے گویا

مِرا ضمیر ابھی تک مِری پناہ میں ہے


ضمیر کاظمی

No comments:

Post a Comment