Tuesday 28 December 2021

قدم قدم پہ ہے برق و شرار کی دستک

 قدم قدم پہ ہے برق و شرار کی دستک

درونِ نظمِ عمل انتشار کی دستک

نوائے غنچہ و گل ہو کہ خار کی دستک

برائے فکر و نظر ہے بہار کی دستک

وگرنہ گریہ و ماتم ہے جس طرف دیکھو

کسی کسی کو خوش آتی ہے پیار کی دستک

یہ پُر سکون سی آہٹ یہ نرم خاموشی

ضرور ہے یہ کسی وضع دار کی دستک

مجھے یقین ہی کب ہے جو در کو وا کردوں

ہزار ہوتی رہے اعتبار کی دستک

تو پھر ہے نیند بھی مشکوک ایسے لوگوں کی

جگا سکے نہ جنہیں بار بار کی دستک

حیاتِ نو کی ضمانت در اصل ہے خالد

سپاہ گر کے لیے کارزار کی دستک


عبداللہ خالد

No comments:

Post a Comment