وہیں پہ رکھ دیا میں نے چراغ جلتا ہوا
جہاں بھی دیکھ لیا، آفتاب ڈھلتا ہوا
ہزار جال مِری راہ میں بچھائے گئے
مگر میں چلتا رہا، دیکھ کر، سنبھلتا ہوا
منافرت کا جہاں بیج بو گیا تھا تُو
وہاں پر آ کے ذرا دیکھ؛ پیڑ پھلتا ہوا
کسی کی آنکھ میں دیکھو تو سردمہری ہے
کسی کی آنکھ سے آنسو سا اک نکلتا ہوا
شبِ فراق میں وہ نیند توڑتا لمحہ
گزر گیا ہے مِرے خواب کو کچلتا ہوا
ادائیں خوب تھیں میرے عدو کی، محفل میں
میں دیکھتا رہا زاہد! اسے، مچلتا ہوا
محبوب زاہد
No comments:
Post a Comment