جانے کس سانحۂ درد کے غمّاز رہے
عہد در عہد بکھرتی ہوئی آواز رہے
گم ہوئی جاتی ہے تاریک خلاؤں میں نظر
اس گھڑی میرے سرہانے مِرا دَمساز رہے
اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے ہم رفتہ رفتہ
اپنے ہی آپ سے ہم کتنے نظر انداز رہے
نارسائی کا یہ دُکھ بھی تو مکمل نہ ہوا
ہم تِرے ربط میں آغاز ہی آغاز رہے
آ کے واپس نہ گیا کوئی ہوا کا جھونکا
ٹوٹتے لمحوں میں احساس کے در باز رہے
لطف الرحمٰن
No comments:
Post a Comment