Tuesday 28 December 2021

ایک دن غالب کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ

ایک دن غالب کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ

مجھ سے بولی آپ تو کہتے تھے ان کو اولیا

عاشقِ بنتِ عنب کو آپ کہتے ہیں ولی

فاقہ مستی میں بھی ہر دم کر رہا ہے میکشی

پوجنے سے مہ جبینوں کے یہ باز آتا نہیں

اور پھر کافر کہے جانے سے شرماتا نہیں

کوئی بھی مہ وش اکیلے میں اگر آ جائے ہاتھ

چھیڑ خوانی کر دیا کرتا تھا اکثر اس کے ساتھ

بد گمانی کا اگر محبوب کی ہوتا نہ ڈر

اس کے پیروں کا وہ بوسہ لیتا رہتا رات بھر

کوئی رکھتا تھا اگر اس سے ذرا شرم و حجاب

رعب دکھلانے کو اس سے کہہ دیا کرتے جناب

''ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن''

''ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دن''

گر کسی مہمان کے آنے کی ہوتی تھی خبر

بوریا تک بھی نہیں ہوتا تھا اس ننگے کے گھر

اس لیے چھائی ہوئی تھی اس کے گھر میں مفلسی

کل کے ڈر سے آج پینے میں نہ کرتا تھا کمی

مے کشی کو گر کوئی ساقی نہیں دیتا تھا جام

اوک سے پی کر ہی وہ اپنا چلا لیتا تھا کام

مرتے مرتے بھی شراب اس کی نہ ہو پائی تھی کم

جام🍷 کو تکتا رہا، جب تک رہا آنکھوں میں دم

اس کے اس کردار پر مجھ سے نہ کرنا گفتگو

خاک میں جس نے ملا دی خاندانی آبرو

اس قدر پہنچے ہوئے شاعر کا یہ کردار ہے

شعر کہنا چھوڑ دیجے؛ شاعری بے کار ہے

اس سے پہلے کہ مِرا برباد ہو جائے یہ گھر

آپ بس گھر میں رہیں شعر و ادب کو چھوڑ کر

میکشی اور آپ ہوں مطلوب و طالب کی طرح

سوچتی ہوں آپ ہو جائیں نہ غالب کی طرح


نشتر امروہوی

نشتر امروہی

No comments:

Post a Comment