اک چھوڑو ہو اک اور جو مسمات کرو ہو
ہر سال یہ کیا قبلۂ حاجات کرو ہو؟
سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر
بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو
کیا حسن کی دولت بھی کبھی بانٹو ہو صاحب
سننے میں تو آیا ہے کہ خیرات کرو ہو
مل جاؤں تو کرتے ہو نہ ملنے کی شکایت
گھر آؤں تو خاطر نہ مدارات کرو ہو
ہم ذات شریف آئے ہیں اس در پہ یہ سن کر
تم ہنس کے شریفوں سے ملاقات کرو ہو
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب
بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
امیر الاسلام ہاشمی
No comments:
Post a Comment