وہ اندر سے مر جاتے ہیں
جن کے خواب بکھر جاتے ہیں
دیجے اُس دیوار کو پُرسہ
جس کے سائے اُتر جاتے ہیں
بھر لیتے ہیں اِک پیمانہ
جب اندر سے بھر جاتے ہیں
شکر کرو کہ ہجر ملا ہے
ورنہ لوگ تو مر جاتے ہیں
آپ بھی لیجے رستہ اپنا
ہم بھی اپنے گھر جاتے ہیں
کچھ الزام محبت کے اب
دیکھیں کس کے سر جاتے ہیں
کھا کر جھوٹی جھوٹی قسمیں
کیسے لوگ مُکر جاتے ہیں
چھوڑ چکے ہیں ہم وہ رستہ
سب جس رستے پر جاتے ہیں
دُکھ دیتی ہیں درد کی راتیں
دن تو خیر گزر جاتے ہیں
فرخ اظہار
No comments:
Post a Comment