جسے رزقِ ہوا ہونا تھا، وہ اب چاک پر ہے
سُنا ہے بس یہی الزام میری خاک پر ہے
اسے جس نے بھی سمجھا، بےبسی سے مسکرایا
یہی اک جبر میرے قصۂ نم ناک پر ہے
مجھے کہنا تھا جو بھی، کہہ چکا سارے کا سارا
کہا کیا ہے، یہ تیری قوتِ ادراک پر ہے
نجانے کس پہ اس کو جا کے رُکنا ہے بالآخر
نظر سب کی ابھی اک دیدۂ بے باک پر ے
یہ جو مٹی پہ بیٹھا ہے نا تنہا سر جھکائے
نگہ اس کی یقیناً گنبدِ افلاک پر ہے
میر تنہا یوسفی
No comments:
Post a Comment