Tuesday, 28 December 2021

تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی

 تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی

رستے بھی کٹھن اور مسافت بھی نئی تھی

دل تھا کہ کسی طور بھی قابو میں نہیں تھا

رہ رہ کے دھڑکنے کی علامت بھی نئی تھی

جب اس نے کہا تھا کہ مجھے عشق ہے تم سے

آنکھوں میں جو آئی تھی وہ حیرت بھی نئی تھی

واقف بھی نہیں تھا میں کسی سود و زیاں سے

اس عشق کے سودے میں شراکت بھی نئی تھی

خوابوں کے بکھر جانے کا دھڑکا بھی لگا تھا

بیدارئ شب کی مجھے عادت بھی نئی تھی

تعبیر کہاں ڈھونڈنے جاتیں مری آنکھیں

ان کو تو کسی خواب کی زحمت بھی نئی تھی

دل واقفِ آدابِ محبت بھی نہیں تھا

دنیا کے رواجوں سے بغاوت بھی نئی تھی

پھر میں کہ کسی نشے کا عادی بھی نہیں تھا

اور میرے لیے وصل کی لذت بھی نئی تھی

یوں کارِ جنوں کرنا خرد مندوں میں رہ کر

جو ڈالی تھی تم نے وہ روایت بھی نئی تھی


فرحت ندیم ہمایوں

No comments:

Post a Comment