دراز دستوں کی سلطنت ہے
گُلِ تمنا بکھر چکا ہے
یہ شہر لاشوں سے بھر چکا ہے
دریدہ جسموں کی باس سے
پُر ہوا کی پا کوب وحشتوں نے
گلی گلی میں دُہائی دی ہے
جلے مکانوں کی راکھ ہر سُو دکھائی دی ہے
میں اپنے حصے کی راکھ چُن کر
تِری گلی تک تو آ گیا ہوں
مگر یہاں بھی
نہ تُو، نہ تیرے لبوں پہ پھیلا ہوا تبسم
یہاں وہاں دشمنوں کی گھاتیں
کٹے پھٹے بے یقین چہرے
لہو میں ڈوبی ہوئی تمنا، سراب منزل
بدن کو دو لخت کرکے پھیلی مہیب ساعت
نہ آگے بڑھنے کا کوئی یارا
نہ لَوٹ آنے کی کوئی مہلت
کڑکتی بجلی کمند پھینکے
تو آسماں سَٹپٹا کے اپنی جہات بدلے
میں بچ نکلنے کی راہ ڈھونڈوں
غنیم چُپکے سے گھات بدلے
شکستہ دیوار و در میں اٹکے کِواڑ
دھم سے گری فصیلوں پہ نوحہ خواں ہیں
جلے دریچوں کے بیچ اب بھی
سُلگتی چلمن کی دھجیاں ہیں
کسی کی چُرمُر کلائی میں ٹوٹی چُوڑیاں ہیں
دریدہ جسموں کے ادھ جلے ڈھیر میں
ابھی تک تِرے تبسم کی قوس شاید
اجل کے بوسے کی منتظر ہے
ہزار اسود سرشت لمحے
نگارِ خُوباں کے پیچ و خم میں جَڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے حصے کے گھاؤ لے کر نکل پڑے ہیں
بسیط دشت و دمن میں ہر سُو
دراز دستوں کی سلطنت ہے
ہم اپنی بے محملی میں باندھی
شکست کی گٹھڑیاں اٹھائے
خود اپنی دھرتی پہ بے وطن ہیں
لہو کی چادر نے ڈھانپ لی ہے
ہمارے زخموں کی بے نوائی
ہماری آنکھوں میں نقش بے منزلی
ہزاروں سراب بُن کر
کوئی تو منزل تلاش لے گی
ہماری ہجرت نئے سرے سے
کوئی کہانی تراش لے گی
مگر غلامی کی یہ صلیبیں
ہمارے بوجھل سروں کو اتنا جھکا رہی ہیں
کہ ہم فقط زخم دیکھ پائیں
دراز دستوں کی سلطنت میں جدھر بھی جائیں
نظر اٹھائیں تو سر کٹائیں
خود اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں فریب کھائیں
ہمارے رختِ سفر میں باندھی گئی ہے
صدیوں کی بے قراری
ہمیں تو ایندھن سمجھ کے جھونکے ہے یہ شکاری
نظامِ زر سے فروغ پاتی دراز دستی
ہزار حیلوں سے
ہم نحیفوں کو نوچ کھانے کی منتظِر ہے
طلب رسد کے حصار میں
رُک کے سانس لیتے تمدنوں کو
ضرورتوں نے جکڑ لیا ہے
لباسِ آتش پہن کے نکلے یہ ٭لاؤ لشکر
ہمارے خِرمن جلا رہے ہیں
ہماری ہستی مٹا رہے ہیں
نحیف لوگوں کے قافلے بھی ٹھہر کے سوچیں
کہ ظلم سہنے کی آخری حد کہاں تلک ہے؟
رانا غضنفر عباس
٭لاؤ لشکر: غلط العام لفظ ہے اصل میں یہ لاد لشکر ہے
No comments:
Post a Comment