میرے اندر کا بہادر شخص بزدل بن گیا
میرے اپنے سامنے جب میرا بیٹا تن گیا
زہر بن کر گُھل گئی دل میں خیالوں کی دھنک
ہاتھ اپنے کاٹ کر جب دے دئیے تو فن گیا
ایک بدلی کو مِرے سر سے گزارا جائے گا
اور مجھے یہ ماننا ہو گا؛ مِرا ساون گیا
میں ترستا رہ گیا اپنی جوانی کے لیے
چھوڑ کر کس حال میں مجھ کو مِرا بچپن گیا
میرا خالی پن بھی مجھ سے چھن گیا ہے دوستو
زندگی جس کی حفاظت میں کٹی، وہ دھن گیا
ریزہ ریزہ کر گیا ہے سالمیت کا غرور
میں بہت خوش تھا کہ اب میرا ادھورہ پن گیا
آس کی کرنوں نے اتنے چھید مجھ میں کر دئیے
میں بھی اپنے جسم کی چھلنی سے یوسف چھن گیا
یوسف مثالی
No comments:
Post a Comment