سوچ کے دائرے
درد ہے، درد کی رات ہے
غم ہے، تنہائی ہے
تو کیا ہوا
یہی تو زندگی کا محاصل ہے
یہی کائنات ہے
لوگ کہتے ہیں، یہ شکستِ آرزو ہے
یہ سٹریس ہے، ڈیپریشن ہے
یہ ناکامیاں اور انیگزائٹی ہے
زندگی کے اس اثاثے سے لوگ غافل ہیں
جسے کسی گٹھری میں باندھ کر
چُھپا کر نہیں رکھنا پڑتا
کسی بنک یا لاکر کی حاجت نہیں
نہ ہی سیکیورٹی کیمرے درکار ہیں
کوئی لوٹنا چاہے گا میرا درد
نکال لے میرے گھٹنوں کی چپنیوں
کے اندر سے درد
یا جو میری پنڈلیوں میں محفوظ پڑا ہے
میری ریڑھ کی ہڈی کے آخری تین
مہروں میں درد وافر موجود ہے
یا میز پہ پڑا “پینا ڈول” کا پتا لے جائے
غم یہ تو میری شناخت ہے
اس میں میرے نحیف چہرے کی شباہت
میری اُجڑے ہوئے چہرے کے خد و خال
غم میرا خیال، میرے تصورات
میں بذاتِ خود غم ہوں
یعنی میں ہی غم ہوں، میرا وجود
بہت پینڈا کاٹنا پڑتا ہے
جوتیاں توڑنا پڑتی ہیں
تنہائی سب سے قیمتی متاع ہے
غیبت طراز محفلوں سے بہت بہتر
تنہائی میری سوچ کے دائرے
جن میں میں خود سے کلام کرتا ہوں
اپنے آپ سے ملتا ہوں، سانس لیتا ہوں
پڑھتا ہوں، لکھتا ہوں
زندگی کچھ اور نظر آتی ہے
قیصر اقبال
No comments:
Post a Comment