کیوں بھلا ایسے دربدر ہوتے
ہم کسی کام کے اگر ہوتے
جو گزرتے تمہارے ساتھ وہ دن
جیسے فردوس میں بسر ہوتے
کاش اس راہ سے گزرتے تم
اور ہم گردِ رہگزر ہوتے
زیر ہو بھی گئے تو کیا کہ انہیں
دیر لگتی نہیں زبر ہوتے
سحر کو سامنے دعاؤں کے
ہم نے دیکھا ہے بے اثر ہوتے
حفیظ الرحمٰن
No comments:
Post a Comment