Monday 27 December 2021

کیوں بھلا ایسے دربدر ہوتے

 کیوں بھلا ایسے دربدر ہوتے

ہم کسی کام کے اگر ہوتے

جو گزرتے تمہارے ساتھ وہ دن

جیسے فردوس میں بسر ہوتے

کاش اس راہ سے گزرتے تم

اور ہم گردِ رہگزر ہوتے

زیر ہو بھی گئے تو کیا کہ انہیں

دیر لگتی نہیں زبر ہوتے

سحر کو سامنے دعاؤں کے

ہم نے دیکھا ہے بے اثر ہوتے​


حفیظ الرحمٰن

No comments:

Post a Comment