Monday, 27 December 2021

آئینہ ہر صورت سے بات نہیں کرتا

 آئینہ ہر صورت سے بات نہیں کرتا


آئینے کی آنکھ ہر آنکھ کو کھنگال نہیں سکتی

نہ آئینے کا دل روح کے پار کی آواز سنتا ہے

آئینے کے لب

ہمارے آنسوؤں کو چھو نہیں سکتے

پر آئینے کے ہاتھ ہمارا جسم

آزاد نہیں کرتے

بھولی یادیں

خود آئینوں کو ڈھونڈ لیتی ہیں

دھندلے آئینے

شکستہ لمحوں کو یاد نہیں کرتے

آئینہ ماہ و سال سے لپٹی ہر کہانی

تحریر کیسے کرے

دھواں دھواں ہوتے خواب

تصویر کیسے کرے

آئینہ ملن پر کوئی گیت

ہجر کی کوئی ریت

حُسن پر چند جملے

اداسی پر کچھ فقرے

سن بول سکتا ہے

خالی آنکھوں کے پیالوں میں

سچ جھوٹ گھول سکتا ہے

آئینے کو بھی کچھ شکلوں سے

وحشت ہوتی ہے

کچھ کیفیات سے

محبت ہوتی ہے

کچھ حالتوں سے

بیزاری ہوتی ہے

کچھ قہقہوں سے

خماری ہوتی ہے

آئینہ تیرا میرا نہیں

آئینہ بس اپنا ہے

وقت کا یقین تھا

یہ درد کو دہرائے گا

مجھے تمہاری یاد دلائے گا

اور اِس آئینے نے اپنی دوستی کا

یہی صلہ دیا ہے

یہ میری صورت تک پہچانتا نہیں


حمیرا فضا

No comments:

Post a Comment