آئینہ ہر صورت سے بات نہیں کرتا
آئینے کی آنکھ ہر آنکھ کو کھنگال نہیں سکتی
نہ آئینے کا دل روح کے پار کی آواز سنتا ہے
آئینے کے لب
ہمارے آنسوؤں کو چھو نہیں سکتے
پر آئینے کے ہاتھ ہمارا جسم
آزاد نہیں کرتے
بھولی یادیں
خود آئینوں کو ڈھونڈ لیتی ہیں
دھندلے آئینے
شکستہ لمحوں کو یاد نہیں کرتے
آئینہ ماہ و سال سے لپٹی ہر کہانی
تحریر کیسے کرے
دھواں دھواں ہوتے خواب
تصویر کیسے کرے
آئینہ ملن پر کوئی گیت
ہجر کی کوئی ریت
حُسن پر چند جملے
اداسی پر کچھ فقرے
سن بول سکتا ہے
خالی آنکھوں کے پیالوں میں
سچ جھوٹ گھول سکتا ہے
آئینے کو بھی کچھ شکلوں سے
وحشت ہوتی ہے
کچھ کیفیات سے
محبت ہوتی ہے
کچھ حالتوں سے
بیزاری ہوتی ہے
کچھ قہقہوں سے
خماری ہوتی ہے
آئینہ تیرا میرا نہیں
آئینہ بس اپنا ہے
وقت کا یقین تھا
یہ درد کو دہرائے گا
مجھے تمہاری یاد دلائے گا
اور اِس آئینے نے اپنی دوستی کا
یہی صلہ دیا ہے
یہ میری صورت تک پہچانتا نہیں
حمیرا فضا
No comments:
Post a Comment