Monday, 27 December 2021

کوئی تو ہو جو کرچیوں کو جوڑ کر دل بنا دے

 کوئی تو ہو


جرمِ زندگی کی قید سے، جب کبھی

پیرول پہ رہا ہوتا ہوں

بے قرار لمحوں کی

مجروح حسرتوں سے جب

لڑ کھڑا کے گر جاتا ہوں، تو

خود کو سمیٹنے کی غرض سے

تسکینِ جاں کی خاطر

اپنے کمرے میں

تازہ گلابوں کی پتیاں بکھیر کر

اگر بتیاں سُلگا کر اُسے

آستانۂِ پیرِ حرم و حجرۂ ولایت بنا لیتا ہوں

تاکہ اپنے تاریک سماج کی

مُردہ دلی اور بد بخت نوحوں سے

سسکیاں اور آہیں نچوڑ سکوں

زندہ آرزوؤں کے اس قبرستان میں

فریبِ مسلک کی چادر سے

اپنا سر ڈھانپ کر

نصابِ طریقت کے جعلی عرفان کی

جھوٹی ریاضت سے

اپنے کشکولِ مُردار خور میں

اپنی بے ضمیری کے ٹسوے بہاتا ہوں

تاکہ، میری روحانی فضیلت

اپنی تمکنت کی مُستند ترین

شہادت پیش کر سکے

چراغِ حرم روشن ہوتے ہی

بد بخت خواتین، اپنی خلشِ کم مائیگی

کے سوختہ اندیشوں کی تشفی کی خاطر مجھے

الوہی اوتار سمجھ کر میرے

قدموں میں بیٹھ جاتی ہیں

یہ وہ ہیں

جن کے شباب سپنے جسم کے اندر ہی

بغیر انگڑائی لیے مر گئے

جو وجودی رفاقت کی بھٹی میں

تنہا ہی جلتی رہیں

جو سیلابِ عشق کی گرمی میں بھی

روٹھے موسموں کی طرح ٹھنڈی رہیں

جو نکاح میں ہونے کے باوجود

مِلن کی رُت کو ترس گئیں

جن کے وصال لمحوں میں

بوسۂ جذبات، اک تصور ہی رہا

یہ سب مجھے خدائی نظامِ عدل کا

نمائندہ سمجھ کر مجھ سے

تعویذ لے جاتی ہیں، صرف اس لیے کہ

کوئی تو ہو، جو

کرچیوں کو جوڑ کر دل بنا دے

کوئی تو ہو


قیصر اقبال

No comments:

Post a Comment