Monday, 27 December 2021

یوں لگتا ہے خواب تھا سارا

 وہم و گماں تھا


یوں لگتا ہے خواب تھا سارا

سب دھوکا تھا

ہینڈل سے سٹارٹ جو ہوتی تھی وہ لاری

گھوں گھوں کرتی

اونچی نیچی سڑکوں پر ہچکولے کھاتی

تانگے کی رفتار سے چلتی دھول اڑاتی

کہیں نہیں ہے

برگد، پیپل، نیم، پھلاہی

بیری اور ٹالہی کی چھاؤں کی چوپالیں

حقے کی سنگت میں قصے

ہیر کی تان اب ہمیں بلاتی

کہیں نہیں ہے

کنوئیں کا جھر جھر گِرتا پانی

اپنی سُندرتا کے نشے میں

اِتراتا اور شور مچاتا

پیاسے کھیت کی پیاس بجھانے

آئینہ رو

آہستہ آہستہ جاتا

اور چرخی کی ٹک ٹک ٹک ٹک ساز بجاتی

کہیں نہیں ہے

گھر کی لپائی اور صفائی کی خاطر

چھپڑ کے گارے کا تسلہ بھی

اپنے سر پر رکھوانے کو

رابو جوگن

کسی کو اپنے پاس بلاتی

کہیں نہیں ہے

شام کو لالو ماچھی کی ماں

اپنے گھر بھٹی دہکائے

اک لپ مزدوری کے بدلے

دانے بھونتی

صبح سویرے

گھر گھر چاٹی اور مدھانی

دہی بلوتی آوازوں کا

سحر جگاتی

کہیں نہیں ہے

مٹی کی سوندھی خوشبو کو

برکھا مہکاتی

کہیں نہیں ہے

چاندنی رُت میں نہر کے پُل پر

کیوں بابے وریام کی بنسی

مدھر سروں کے جادو میں

سب کو نہلاتی

کہیں نہیں ہے

کچھ بھی نہیں ہے، کہیں نہیں ہے

یوں لگتا ہے

خواب تھا سارا

سب دھوکا تھا

وہم و گماں تھا

جس کو میں اب

ڈھونڈ رہا ہوں

ایسا میرا گاؤں کہاں تھا


احمد امتیاز

No comments:

Post a Comment