Monday 27 December 2021

خوف کی گرد میں لپٹے سناٹے ہیں چاروں جانب

 چاروں جانب


گہری نیند کے ریلے میں دو خستہ آنکھیں

دھیرے دھیرے

بے خبری سے بھر جاتی ہیے

لمبی لمبی سانسیں لے کر

ہمیں کہیں رکنا پڑتا ہے

لیکن یوں بیٹھے بیٹھے

براق کہاں ملتے ہیں

ہر راہداری میں شریانیں کھول کے

ہرے بھرے

برسوں کی دستاویز دکھانا پڑتی ہے

اک ترتیب بنانا پڑتی ہے

ماں کی گود میں

کچی مٹی سے لیپے دالان میں

ساری عمر نہیں کٹ سکتی

باتیں کرتی آنکھوں اور پوروں سے

لمس کی بیل اُگانا پڑتی ہے

اک ترتیب بنانا پڑتی ہے

یہ جو وقفے وقفے پر

اک خوف کی گرد میں لپٹے سناٹے ہیں چاروں جانب

یہ جو آنکھ مچولی ہےآوازوں کی

یہ جو ایک تماشا ہے حیرانی کا

اس حیرانی کے گھیرے میں

سناٹوں سے گھائل ہوتی آوازوں تک

ہر وقفے میں آگ جلانا پڑتی ہے

اک ترتیب بنانا پڑتی ہے


فرخ یار

No comments:

Post a Comment