چاروں جانب
گہری نیند کے ریلے میں دو خستہ آنکھیں
دھیرے دھیرے
بے خبری سے بھر جاتی ہیے
لمبی لمبی سانسیں لے کر
ہمیں کہیں رکنا پڑتا ہے
لیکن یوں بیٹھے بیٹھے
براق کہاں ملتے ہیں
ہر راہداری میں شریانیں کھول کے
ہرے بھرے
برسوں کی دستاویز دکھانا پڑتی ہے
اک ترتیب بنانا پڑتی ہے
ماں کی گود میں
کچی مٹی سے لیپے دالان میں
ساری عمر نہیں کٹ سکتی
باتیں کرتی آنکھوں اور پوروں سے
لمس کی بیل اُگانا پڑتی ہے
اک ترتیب بنانا پڑتی ہے
یہ جو وقفے وقفے پر
اک خوف کی گرد میں لپٹے سناٹے ہیں چاروں جانب
یہ جو آنکھ مچولی ہےآوازوں کی
یہ جو ایک تماشا ہے حیرانی کا
اس حیرانی کے گھیرے میں
سناٹوں سے گھائل ہوتی آوازوں تک
ہر وقفے میں آگ جلانا پڑتی ہے
اک ترتیب بنانا پڑتی ہے
فرخ یار
No comments:
Post a Comment