رہنے دو مجھے
گزرے ہوئے وقتوں سے نکل کر دیکھا
آج کا دور علاحدہ تو نہیں ہے
وہ ہی آواز کے سائے وہ ہی بے شرم سراب
آج بھی موجود ہیں کل جیسے خراب
چہرے ذرا بدلے ہیں نئی بات نہیں ہے
مانا بیتے ہوئے کل سے ندامت ہے مجھے
ایسا کچھ بھی تو نہیں جس سے عقیدت ہے مجھے
ماضی ولے کچھ بھی ہو جینے کا بہانہ ہے مرے
اک خواب محبت کا سہانا ہے مرے
اب وہ ہی چھوڑ کے جینا ہے تو جینا کیا ہے
ہاں ذرا درد بھی ہو لیتا ہے گاہے گاہے
اور جان پہ بن آتی ہے تب جب چاہے
یہ بھی لگتا ہے کے راستے بند ہیں سب
اور جینے کی سجا آخر کب تک
پر مرے دوست یہ حال تو ماضی سے بھی بد تر ہے
اس میں نفرت کے ابالے ہیں بہت
اس میں آہیں فغاں و نالے ہیں بہت
جینے کے لیے مرنے کی ضرورت ہے بہت
تھا تو یہ پہلے بھی مگر اتنا نہیں تھا
کچھ کا تھا ٹوٹا ہوا ہر ایک کا سپنا نہیں تھا
مجھ کو میرے ماضی میں فنا رہنے دو
میری الفت مِرے جینے کا بہانہ ہے بہت
قلیل جھانسوی
No comments:
Post a Comment