Monday, 27 December 2021

رہنے دو مجھے

 رہنے دو مجھے


گزرے ہوئے وقتوں سے نکل کر دیکھا

آج کا دور علاحدہ تو نہیں ہے

وہ ہی آواز کے سائے وہ ہی بے شرم سراب

آج بھی موجود ہیں کل جیسے خراب

چہرے ذرا بدلے ہیں نئی بات نہیں ہے

مانا بیتے ہوئے کل سے ندامت ہے مجھے

ایسا کچھ بھی تو نہیں جس سے عقیدت ہے مجھے

ماضی ولے کچھ بھی ہو جینے کا بہانہ ہے مرے

اک خواب محبت کا سہانا ہے مرے

اب وہ ہی چھوڑ کے جینا ہے تو جینا کیا ہے

ہاں ذرا درد بھی ہو لیتا ہے گاہے گاہے

اور جان پہ بن آتی ہے تب جب چاہے

یہ بھی لگتا ہے کے راستے بند ہیں سب

اور جینے کی سجا آخر کب تک

پر مرے دوست یہ حال تو ماضی سے بھی بد تر ہے

اس میں نفرت کے ابالے ہیں بہت

اس میں آہیں فغاں و نالے ہیں بہت

جینے کے لیے مرنے کی ضرورت ہے بہت

تھا تو یہ پہلے بھی مگر اتنا نہیں تھا

کچھ کا تھا ٹوٹا ہوا ہر ایک کا سپنا نہیں تھا

مجھ کو میرے ماضی میں فنا رہنے دو

میری الفت مِرے جینے کا بہانہ ہے بہت


قلیل جھانسوی

No comments:

Post a Comment