زبانیں ہیں مگر چرچے نہیں ہیں
جہاں میں کیا مِرے قصے نہیں ہیں
ہماری داستاں ہی عام کر دو
اگر تاریخ کے پنّے نہیں ہیں
کھڑے ہیں شبنمی اخلاق لے کر
کبھی شعلوں سے ہم جلتے نہیں ہیں
میں اپنے گھر کو ہی نیلام کر دوں
ابھی حالات تو ایسے نہیں ہیں
دلوں میں چاہتیں اب بھی ہیں باقی
مگر اب دلنشیں چہرے نہیں ہیں
میں سرحد پر کھڑا ہوں اب بھی تنہا
مِرے سینے پہ کیوں تمغے نہیں ہیں
دعائیں دے کے مجھ کو مار ڈالیں
مِرے احباب تو ایسے نہیں ہیں
کوئی کیسے بنائے آشیانہ
کہ جنگل میں بھی اب تنکے نہیں ہیں
لڑکپن میں جوانی کی ضدیں کیوں
میاں یہ چونچلے اچھے نہیں ہیں
جو مغرب سے ملیں تیزاب بن کر
مِرے مشرق میں وہ تحفے نہیں ہیں
کوئی پتّہ ابھی ہو زرد کیسے
مِرے آنسو ابھی سو کھے نہیں ہیں
مجاز آب تو علمبردار ہو جا
کہ اب دریاؤں پر پہرے نہیں ہیں
مجاز انصاری
نیاز احمد
No comments:
Post a Comment