Monday 27 December 2021

شراب شور سے لبریز ہے دنیا کا پیمانہ

 شراب شور سے لبریز ہے دنیا کا پیمانہ

حریف دین و دانش ہے مذاق پیر مے خانہ

بشر ابلیس کو تزویرِ نو کا درس دیتا ہے

مزین ہے گناہِ گوناگوں سے ہر پری خانہ

علومِ نو سے روشن بزم ہے تہذیبِ حاضر کی

یدِ تجدید نے ڈھالا ہے دلآویز بت خانہ

یہ مانا مغربی تعلیم نے پرواز بخشی ہے

یہ ماہ و خور بھی بن جائیں گے اب قندیل کا شانہ

خدا کے چاہنے والے ابھی تک بھولے بھالے ہیں

بنا رکھا ہے حرزِ جاں سدا ماضی کا افسانہ

گناہِ تازہ کی تخلیق سے ابلیس قاصر ہے

دماغِ فتنہ جُو پر ہے مسلط ضعفِ پیرانہ

بہت مجبور بے چارہ ہے خود پیرانہ سالی سے

اسے معلوم کیا ہے معصیت کا تازہ پیمانہ

خدا والے تعجب ہے کہ معصوم و مقدس ہیں

عذابِ نو بہ نو سے ہے مرصع آئینہ خانہ

رہِ تشکیک پر رخشِ ہنر پیہم خراماں ہے

بہت مشکل ہے فطرت کا ابھی تسخیر فرمانا

مساواتِ نظر کا مدتوں سے شور سنتا ہوں

فضا دنیا کی ہے لیکن ابھی تک فرقہ وارانہ

ہوس کا درس تو یارو بہت ہی خوب ہے لیکن

ابھی قرآن کی تفہیم سے عاجز ہے فرزانہ

بتوں کا توڑنا تھا کارِ آساں عہدِ ماضی میں

ولے مشکل ہے ڈھانا آج کی حکمت کا بتخانہ

قلوبِ عصرِ حاضر میں ابھی ایمان ڈھل جائے

فقیروں کا نہیں دیکھا ہے اعجازِ کلیمانہ

تفاخر کے مریضوں کے لیے اکسیر ہوتی ہے

سراسر بندۂ بیباک کی طرزِ فقیرانہ


بیباک بھوجپوری

No comments:

Post a Comment