کشتِ وِیراں میں نئی خواہشیں بونے کے لیے
کوئی احساس تو ہو، ہونے نہ ہونے کے لیے
یہ ضروری تو نہیں زخم کوئی تازہ لگے
سو بہانے ہیں کسی بات پہ رونے کے لیے
چند اک اشک تو آنکھوں میں بچائے رکھیں
داغ جو دل میں بچے ہیں انہیں دھونے کے لیے
اڑتے لمحوں کے تعاقب میں نکلنا سیکھو
روح میں ان کی حرارت کو سمونے کے لیے
روز چپکے سے سرِ شام چلی آتی ہے
اک اداسی مِری دہلیز پہ سونے کے لیے
تخت اور تاج کو خاطر میں نہ لانے والا
دل مچل جاتا ہے کیوں ایک کھلونے کے لیے
زیست گلرنگ ہے، ان رنگوں میں یہ رنگ بھی ہے
پا لیا جاتا ہے کچھ لوگوں کو کھونے کے لیے
گلفام نقوی
No comments:
Post a Comment