ان دنوں
کوئی بھی راستہ
رشتہ یا رابطہ دل کی منزل نہیں
بند کمرے میں
کالے اندھیرے کی بڑھتی ہوئی تیز لو
روشنی کی رسد اور طلب
کاٹ دیتی ہے
لیکن میں جھگڑا نہیں چاہتا
اپنی مرضی سے
تاریکیوں کے کھڑے پانیوں میں جو کودے
تو وہ ڈوبتے ڈوب جاتا ہے پر
ہاتھ پاؤں نہیں مارتا
جان پہچان والے
تو ملبوں سے بھی
اپنے مطلب کی شے چھان کر ڈھونڈھ لاتے ہیں
(میری خوشی چاہتے ہیں)
مگرہر ملاقات بیزار
اور اک تھکا دینے والی مسلسل مسافت ہے
جیسے کوئی پٹڑیوں کا سفر
پٹڑیاں، ریل گاڑی کی انگلی پکڑ کر
سفر پہ نکلتی تو ہیں
ہانپتی ہیں مگر ساتھ چلتی نہیں
اور صد شکر کہ)
اندرونِ بدن کے
مقفل مکاں کے پتے تک
(کسی واقعے اور کسی ڈاکیے کی رسائی نہیں
گفتگو کیا کروں
ایک نقطہ بھی آواز کا
اس سماعت کے کاغذ پہ گرتا ہے تو
اس سے لپٹی سیاہی زمینوں
زمانوں تلک پھیلتی ہے
مجھے ان دنوں
ہر کسی سے کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے
اور اس مسئلے کا کوئی حل نہیں
ان دنوں
کوئی بھی راستہ
رشتہ یا رابطہ دل کی منزل نہیں
ہمایوں منصور
No comments:
Post a Comment