روز پوچھے ہے مِرے دل کا بیاباں مجھ سے
جانے کیوں روٹھ گیا جانِ بہاراں مجھ سے
موت اس وقت مسیحا کی طرح لگتی ہے
زندگی ہوتی ہے جب دست و گریباں مجھ سے
مرتے دم بھی نہ ہوئی ہائے میسر خلوت
ملنے آئے ہیں وہ ہمراہ رقیباں مجھ سے
دل کی ہر بات کو لفظوں میں بیاں کرتا ہوں
اس لیے رہتے ہیں کچھ لوگ پریشاں مجھ سے
زندگی صرف کی دنیا کی طلب میں آخر
کچھ ادا ہو نہ سکا فرضِ مسلماں مجھ سے
شب گزرتے ہی بجھا دو گے یقیناً مجھ کو
رو کے یہ کہنے لگی شمعِ شبستاں مجھ سے
تشنگی سے بھی مجھے کیف میسر آتا
کاش مل جاتا کوئی ابرِ گریزاں مجھ سے
تجھ کو دیکھا تھا یہاں کِھلتے گلابوں کی طرح
اس لیے چھٹتا نہیں شہرِ نگاراں مجھ سے
میں قلم بیچ کے شاہوں کے قصیدے لکھوں
چاہتے ہیں یہی شاہوں کے ثنا خواں مجھ سے
دیکھ کر بڑھتے ہوئے درد کی شدت کو بلال
زخم بھی ہونے لگے اب تو پشیماں مجھ سے
بلال سہارنپوری
No comments:
Post a Comment