جو سچ ہی بیچنا پڑے، تو مول بھاؤ کیا کریں
ہیں عکس عکس آئینے تو رکھ رکھاؤ کیا کریں
ہیں شہر بھر میں شادیاں ہر ایک شخص شادماں
کسی کے سامنے ہم اپنے دل کے گھاؤ کیا کریں
یہ کس کے غم کی آنچ سے سلگ رہا ہے آسماں
بجھے گا کس طرح زمیں کا یہ الاؤ، کیا کریں
جو تتلیاں نہیں دکھائی دیں، تو فکر ہو گئی
بہار کا چمن سے اب ہے چل چلاؤ کیا کریں
ندی میں آئی باڑھ کو خبر سمجھ رہے تھے ہم
ہمارے گھر کی سمت بھی ہے اب بہاؤ کیا کریں
جو کل ہمیں بچائے تھی سمندروں کے درمیاں
حنا! ہے آج ڈوبنے کو خود وہ ناؤ، کیا کریں
حنا رضوی حیدر
No comments:
Post a Comment