Monday 27 December 2021

رستے روٹھ جاتے ہیں

 رستے رُوٹھ جاتے ہیں


اگر پامال راہوں پر قدم رکھنے کی عادت ختم ہو جائے

مشامِ جاں میں خُوشبو کی بجائے درد در آئے

وصال آمادہ شہراہوں پہ فرقت کا بسیرا ہو

اک ایسا وقت آ جائے

جو تیرا ہو نہ میرا ہو

محبت کی سنہری جھیل پر غم کی گھنیری رات چھائی ہو

کناروں پر فقط نمدیدہ تنہائی کی کائی ہو

چمکتے پانیوں پر تھرتھراتے عکس کھو جائیں

روپہلی دھوپ میں سرسبز پگڈنڈی اچانک زرد پڑ جائے

سمندر کی نمیدہ ریت پر نقشِ قدم لہریں نگل جائیں

وہ آنکھیں جن میں ست رنگے سجیلے خواب رہتے ہوں

وہاں آسیب بس جائے

جو دونوں سمت سے  سایہ فگن پیڑوں تلے بھی 

چلچلاتی دھوپ پھیلی ہو، جہاں ہر روز جانا ہو

وہاں پر گھاس اُگ آئے

تو رستے روٹھ جاتے ہیں


سلمان باسط

No comments:

Post a Comment