Monday 27 December 2021

وہ اترنے کو ہے رات ڈھلنے کو ہے

 رات ڈھلنے کو ہے


سانس روکے ہوئے وقت کے پیڑ کو

چھیڑتی ہے ہوا

حبس چھٹنے لگا

بین کرتی ٹٹیری کی منحوس آواز پہ

اوس پڑنے لگی

رس بھری چاندنی سے

چپکنے لگے خشک آنکھوں کے لب

خشک ہوتے ہوئے حلقِ شب میں انڈیلی گئی

قطرہ قطرہ دمکتے ہوئے جگنوؤں کی شراب

رات کی شاخ پر

روشنی سے مہکتے ستاروں کا بُور آ گیا

چاند ایسا پیالہ چھلکنے کو ہے

جو اندھیروں کی پپڑی جمی تھی لبِ بام و در

وہ اترنے کو ہے

رات ڈھلنے کو ہے


ظہیر مشتاق

No comments:

Post a Comment