رات ڈھلنے کو ہے
سانس روکے ہوئے وقت کے پیڑ کو
چھیڑتی ہے ہوا
حبس چھٹنے لگا
بین کرتی ٹٹیری کی منحوس آواز پہ
اوس پڑنے لگی
رس بھری چاندنی سے
چپکنے لگے خشک آنکھوں کے لب
خشک ہوتے ہوئے حلقِ شب میں انڈیلی گئی
قطرہ قطرہ دمکتے ہوئے جگنوؤں کی شراب
رات کی شاخ پر
روشنی سے مہکتے ستاروں کا بُور آ گیا
چاند ایسا پیالہ چھلکنے کو ہے
جو اندھیروں کی پپڑی جمی تھی لبِ بام و در
وہ اترنے کو ہے
رات ڈھلنے کو ہے
ظہیر مشتاق
No comments:
Post a Comment