درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے
مجھ سے دل ضبط کا اندازِ جوانی مانگے
بات ایک روز نئی چاہیۓ سچ ہو کہ نہ ہو
عالمِ طِفل تو بس کوئی کہانی مانگے
کیا بھلا خاک کرے گا وہ کوئی راہبری
ہر مسافر سے جو منزل کی نشانی مانگے
عشق کیا عام ہوا اپنا کہ دنیا ہم سے
ایک اک لمحۂ کی اک رام کہانی مانگے
گھر تو پیارا ہے ہمیں اب بھی رگِ جاں کی طرح
گھر کا ماحول مگر نقل مکانی مانگے
اپنا ہر عکس نئے رنگ میں دیتا ہے ہمیں
اور ہم سے وہی تصویر پرانی مانگے
درد اظہار کا طالب تو ہے اشعر! لیکن
رُونمائی کے لیے طرزِ نہانی مانگے
منیف اشعر
No comments:
Post a Comment