Saturday, 25 December 2021

مری زبان کو پاؤں کو بھی شکایت ہے

 مِری زبان کو پاؤں کو بھی شکایت ہے

کہ مجھ سے میری نگاہوں کو بھی شکایت ہے

میں چھوڑ کیوں نہیں دیتا انہیں سدا کے لیے

یہ مجھ سے میرے گناہوں کو بھی شکایت ہے

وبائیں کر رہی ہیں قتلِ عام دنیا میں

کوئی نہ کوئی وباؤں کو بھی شکایت ہے

وبا کا ساتھ ہوائیں بھی دے رہی ہوں جہاں

میں سوچتا ہوں ہواؤں کو بھی شکایت ہے

ہر ایک سمت ہے آلودگی سے آلودہ

ہر ایک شہر کو گاؤں کو بھی شکایت ہے

ملے گی اس کو نہ جنت کبھی کوئی جس سے

گِلہ ہے باپ کو ماؤں کو بھی شکایت ہے

خدا کے نام پہ دیتے نہیں ہیں سِکہ بھی

امیر سے یہ گداؤں کو بھی شکایت ہے

وہ سُوکھ جایا ہی کرتا ہے ایک دن عابد

کہ جس درخت سے چھاؤں کو بھی شکایت ہے


ایس ڈی عابد

No comments:

Post a Comment