لگے ہیں پھر سے دہرانے وہی باتیں دسمبر کی
سلگتے دن، خفا شامیں، بلا راتیں دسمبر کی
شکستہ دل، تھرکتے لب، برستا آنکھ کا پانی
کہاں ہم بھول پائے ہیں یہ سوغاتیں دسمبر کی
بلا کا سرد لہجہ تھا دسمبر کی طرح ان کا
ہمیں کب راس آئی ہیں ملاقاتیں دسمبر کی
برستی برف میں بھی دل جلا لیتے ہیں دیوانے
کبھی آؤ، دکھائیں ہم کراماتیں دسمبر کی
نہ کوئی حادثہ ہو دل سے دل ملنے کے موسم میں
بڑے حیران تھے سن کر مناجاتیں دسمبر کی
کسی کی آنکھ کے پانی نے شاہد راز کھولا ہے
کہ کیوں تاثیر رکھتی ہیں یہ برساتیں دسمبر کی
شاہد عباس
No comments:
Post a Comment