تھپیڑے لُو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے
جو اس نے یاد کیا مدتوں، بھلا کے مجھے
جو اس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اس سزا کے مجھے
طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار
طریقے آئیں گے کب عرض مدعا کے مجھے
نجانے کس کو دو عالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے
یہ کس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طاری
یہ کون دیکھ رہا ہے نظر بچا کے مجھے
حفیظ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میں
گزر گیا ہے ابھی اک جھلک دِکھا کے مجھے
حفیظ الرحمٰن
No comments:
Post a Comment