کچھ اس طرح سے عشق کے بیمار ہم ہوئے
خود اپنی جان کے لیے، آزار ہم ہوئے
پہلے تو اس جہان سے اُکتا گیا یہ دل
پھر یوں ہوا کہ خود سے بھی بیزار ہم ہوئے
خوشیوں کے تیر روک رہی ہے غموں کی ڈھال
یوں زندگی سے برسرِ پیکار ہم ہوئے
شطرنج، عشق، شاعری، آوارگی و جام
یہ سارے کام کر کے ہی بے کار ہم ہوئے
گر پیار کر کے جرم کِیا ہے، تو ہاں کِیا
گر ہے کوئی سزا تو سزاوار ہم ہوئے
ممکن ہے اس سے بات نہ ترکِ تعلقات
کس درجہ اس کے پیار میں لاچار ہم ہوئے
تیرِ جفا کی زد پہ بہت لوگ تھے، مگر
گھائل تِرے نشانے سے ہر بار ہم ہوئے
شاہد! مزاجِ یار کی نیرنگیاں ہیں یہ
نوکر کبھی بنے، کبھی سرکار ہم ہوئے
شاہد جان
No comments:
Post a Comment