Monday 27 December 2021

عیش ماضی کے گنا حال کا طعنہ دے دے

 عیش ماضی کے گِنا حال کا طعنہ دے دے

گھر پلٹنے کے لیے کوئی بہانہ دے دے

میں نے اس شہر کو اک شخص کا ہمنام کیا

چاہے اب جو بھی اسے نام زمانہ دے دے

سنگ زادوں کو بھی تعمیر میں شامل کر لو

اس سے پہلے کہ کوئی آئینہ خانہ دے دے

اس کا رومال بھی مجبوری تھا، ہمدردی نہیں

اس کو یہ ڈر تھا کوئی اور نہ شانہ دے دے

دل کے اجڑے ہوئے جنگل کو پڑا رہنے دو

عین ممکن ہے پرندوں کو ٹھکانہ دے دے


بال موہن پانڈے

No comments:

Post a Comment