عیش ماضی کے گِنا حال کا طعنہ دے دے
گھر پلٹنے کے لیے کوئی بہانہ دے دے
میں نے اس شہر کو اک شخص کا ہمنام کیا
چاہے اب جو بھی اسے نام زمانہ دے دے
سنگ زادوں کو بھی تعمیر میں شامل کر لو
اس سے پہلے کہ کوئی آئینہ خانہ دے دے
اس کا رومال بھی مجبوری تھا، ہمدردی نہیں
اس کو یہ ڈر تھا کوئی اور نہ شانہ دے دے
دل کے اجڑے ہوئے جنگل کو پڑا رہنے دو
عین ممکن ہے پرندوں کو ٹھکانہ دے دے
بال موہن پانڈے
No comments:
Post a Comment