Monday 27 December 2021

جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے

 جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے

رات ہوتی ہے تو آنکھوں میں اتر آتا ہے

اس کی چاہت کا تو انداز جدا ہے سب سے

وہ تو خوشبو کی طرح روح میں در آتا ہے

بات کرتا ہے تو الفاظ مہک اٹھتے ہیں

جس طرح شاخِ محبت پہ ثمر آتا ہے

پھول اس کے لب و رخسار پہ مر مٹتے ہیں

پیار شبنم کو با اندازِ دگر آتا ہے

ایسا تتلی سا وہ نازک ہے کہ چُھو لینے سے

رنگ اس کا مِرے ہاتھوں پہ ُآتا ہے

تم تو کانٹوں ہی سے گھبرا کے پلٹ جاتے ہو

عشق تو آگ کے دریا سے گزر آتا ہے

فاصلہ سات سمندر سے زیادہ ہے سلیم

دل تو ملنے کے تصور سے ہی بھر آتا ہے


سلیم فوز

No comments:

Post a Comment