جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے
رات ہوتی ہے تو آنکھوں میں اتر آتا ہے
اس کی چاہت کا تو انداز جدا ہے سب سے
وہ تو خوشبو کی طرح روح میں در آتا ہے
بات کرتا ہے تو الفاظ مہک اٹھتے ہیں
جس طرح شاخِ محبت پہ ثمر آتا ہے
پھول اس کے لب و رخسار پہ مر مٹتے ہیں
پیار شبنم کو با اندازِ دگر آتا ہے
ایسا تتلی سا وہ نازک ہے کہ چُھو لینے سے
رنگ اس کا مِرے ہاتھوں پہ ُآتا ہے
تم تو کانٹوں ہی سے گھبرا کے پلٹ جاتے ہو
عشق تو آگ کے دریا سے گزر آتا ہے
فاصلہ سات سمندر سے زیادہ ہے سلیم
دل تو ملنے کے تصور سے ہی بھر آتا ہے
سلیم فوز
No comments:
Post a Comment