کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی
اپنی ہستی اور بھی نزدیکِ جاں ہونے لگی
دھیرے دھیرے سر میں آ کر بھر گیا برسوں کا شور
رفتہ رفتہ آرزوئے دل دھواں ہونے لگی
باغ سے آئے ہو میرا گھر بھی چل کر دیکھ لو
اب بہاروں کے دنوں میں بھی خزاں ہونے لگی
یاد ہے اب تک کسی کے ساتھ اک شام وصال
پھر وہ راتیں جب دمِ رخصت اذاں ہونے لگی
سخت منزل کاٹ کر ہم جب ہوئے کچھ سست پا
تیز رو کچھ اور بھی عمرِ رواں ہونے لگی
گھر کی محنت سے مِری روشن ہوئے ایوانِ زر
روشنی ہونی کہاں تھی، اور کہاں ہونے لگی
سچ کہوں عامر کہ اب اس دور میں جیتے ہو تم
رسمِ الفت بھی جہاں سود و زیاں ہونے لگی
یعقوب عامر
No comments:
Post a Comment